سچی محبت نہ جسمانی ہوتی ہے نہ
رومانی
وہ بہت مصروف صبح تھی کہ ساڑھے آٹھ بجے کے قريب ايک بوڑھا شخص جو 80 سال کا ہو گا اپنے انگوٹھے کے ٹانکے نکلوانے کيلئے آيا ۔ اُسے 9 بجے کا وقت ديا گيا تھا مگر وہ جلدی ميں تھا کہ اُسے 9 بجے کسی اور جگہ پہنچنا ہے ۔ ميں نے اہم معلومات لے ليں اور اُسے بيٹھنے کيلئے کہا کيونکہ اس کی باری آنے ميں ايک گھنٹہ سے زيادہ لگ جانے کا اندازہ تھا ۔ ميں نے ديکھا کہ وہ بار بار گھڑی پر نظر ڈال رہا ہے اور پريشان لگتا ہے ۔ اس بزرگ کی پريشانی کا خيال کرتے ہوئے ميں نے خود اس کے زخم کا معائنہ کيا تو زخم مندمل ہوا ديکھ کر ميں نے ايک ڈاکٹر سے مطلوبہ سامان لے کر خود اس کے ٹانکے نکال کر پٹی کر دی۔
ميں نے اسی اثناء ميں بزرگ سے پوچھا کہ “کيا اُسے کسی اور ڈاکٹر نے 9 بجے کا وقت ديا ہوا ہے کہ وہ اتنی جلدی ميں ہے ؟”
وہ بولا کہ اُس نے ايک نرسنگ ہوم جانا ہے جہاں اُس نے 9 بجے اپنی بيوی کے ساتھ ناشتہ کرنا ہے
اس پر ميں نے بزرگ کی بيوی کی صحت کے بارے ميں پوچھا تو بزرگ نے بتايا کہ اس کی بيوی الزائمر بيماری کا شکار ہونے کے بعد کچھ عرصہ سے نرسنگ ہوم ميں ہے
ميں نے پوچھا کہ “اگر وہ وقت پر نہ پہنچے تو اس کی بيوی ناراض ہو گی ؟”
اُس بزرگ نے جواب ديا کہ “وہ تو پچھلے 5 سال سے مجھے پہچانتی بھی نہيں ہے”
ميں نے حيران ہو کر پوچھا “اور آپ اس کے باوجود ہر صبح اپنی بيوی کے ساتھ ناشتہ کرتے ہيں ؟ حالانکہ وہ پہچانتی بھی نہيں کہ آپ کون ہيں”
بزرگ نے مسکرا کر کہا “درست کہ وہ مجھے نہيں جانتی مگر ميں تو اُسے جانتا ہوں کہ وہ کون ہے”
يہ سن کر ميں نے بڑی مشکل سے اپنے آنسو روکے گو ميرا کليجہ منہ کو آ رہا تھا ۔ ميں نے سوچا “يہ ہے محبت جو ہر انسان کو چاہيئے
وہ بولا کہ اُس نے ايک نرسنگ ہوم جانا ہے جہاں اُس نے 9 بجے اپنی بيوی کے ساتھ ناشتہ کرنا ہے
اس پر ميں نے بزرگ کی بيوی کی صحت کے بارے ميں پوچھا تو بزرگ نے بتايا کہ اس کی بيوی الزائمر بيماری کا شکار ہونے کے بعد کچھ عرصہ سے نرسنگ ہوم ميں ہے
ميں نے پوچھا کہ “اگر وہ وقت پر نہ پہنچے تو اس کی بيوی ناراض ہو گی ؟”
اُس بزرگ نے جواب ديا کہ “وہ تو پچھلے 5 سال سے مجھے پہچانتی بھی نہيں ہے”
بزرگ نے مسکرا کر کہا “درست کہ وہ مجھے نہيں جانتی مگر ميں تو اُسے جانتا ہوں کہ وہ کون ہے”
Respect of women
مدینہ میں ایک حمام (غسل خانہ )تھا۔جس میں مردہ عورتوں کو نہلایاجاتاتھااوران تجہیزوتکفین کی جاتی تھی۔ایک مرتبہ اس میں ایک خاتون جس کاانتقال ہوچکاتھا۔نہلانے کیلئے لایاگیا۔اس کو غسل دیاجارہاتھاکہ ایک عورت نے اس مردہ خاتون کو برابھلاکہتے ہوئے کہا۔انک زانیۃ توبدکار ہے اوراس کے کمر سے نیچے ایک لتڑماڑا۔لیکن اس برابھلاکہنے والی اورپھرمردہ عورت کو مارنے والی عورت کاہاتھ جہاں اس نے ماراتھاچپک گیا۔عورتوں نے بہت کوشش اورتدبیر کی لیکن ہاتھ الگ نہیں ہوا۔بات پورے شہر میں پھیل گئی ۔کیونکہ معاملہ ہی عجیب تھا۔ ایک زندہ عورت کا ہاتھ ایک مردہ عورت کے ہاتھ سے چپکاہواہے اب اس کو کس تدبیر سے الگ کیاجائے۔مردہ کودفن بھی کرناضروری ہے۔اس کے لواحقین الگ پریشان ہوں گے۔معاملہ شہر کے والی اورحاکم تک پہنچ گیا۔ انہوں نے فقہاء سے مشورہ کیا۔بعض نے رائے دی کہ اس زندہ عورت کا ہاتھ کاٹ کر الگ کیاجائے۔کچھ کی رائے یہ بنی کہ مردہ عورت کے جس حصہ سے اس زندہ خاتون کاہاتھ چپکاہے۔اتنے حصہ کو کاٹ لیاجائے۔کچھ کاکہناتھاکہ مردہ کی بے عزتی نہیں کی جاسکتی ۔کچھ کاکہناتھاکہ زندہ عورت کاہاتھ کاٹنااس ک
و پوری زندگی کیلئے معذور بنادے گا۔
شہر کاوالی اورحاکم امام مالک کا قدرشناس اوران کے تفقہ اورفہم وفراست کا قائل تھا۔اس نے کہاکہ میں جب تک اس بارے میں امام مالک سے بات کرکے ان کی رائے نہ لوں میں کوئی فیصلہ نہیں دے سکتا۔امام مالک کے سامنے پورامعاملہ پیش کیاگیا۔توانہوں نے سن کر فرمایانہ زندہ خاتون کاہاتھ کاٹاجائے اورنہ مردہ عورت کے جسم کاکوئی حصہ الگ کیاجائے۔میری سمجھ میں یہ بات آتی ہے کہ مردہ عورت پر اس زندہ خاتون نے جو الزام لگایاہے وہ اس کا بدلہ اورقصاص طلب کررہی ہے لہذاس الزام لگانے والی عورت کو شرعی حد سے گزاراجائے۔چنانچہ شرعی حد جوتمہت لگانے کی ہے یعنی اسی کوڑے۔کوڑے مارنے شروع کئے گئے۔ایک دو،دس بیس،پچاس،ساٹھ ستر بلکہ اناسی79کوڑوں تک اس زندہ خاتون کا ہاتھ مردہ عورت کے جسم کے کمر کے نچلے حصہ سے چپکارہا۔جوں ہی آخری کوڑاماراگیا۔اس کا ہاتھ مردہ عورت کے جسم سے الگ ہوگیا۔
بحوالہ بستان المحدثین للشاہ عبدلعزیز دہلوی،صفحہ25،۔انوارالمسالک لمحمد بن علوی المالکی الحسنی 244،شرح التجرید الصحیح للعلامۃ الشرقاوی 343
شہر کاوالی اورحاکم امام مالک کا قدرشناس اوران کے تفقہ اورفہم وفراست کا قائل تھا۔اس نے کہاکہ میں جب تک اس بارے میں امام مالک سے بات کرکے ان کی رائے نہ لوں میں کوئی فیصلہ نہیں دے سکتا۔امام مالک کے سامنے پورامعاملہ پیش کیاگیا۔توانہوں نے سن کر فرمایانہ زندہ خاتون کاہاتھ کاٹاجائے اورنہ مردہ عورت کے جسم کاکوئی حصہ الگ کیاجائے۔میری سمجھ میں یہ بات آتی ہے کہ مردہ عورت پر اس زندہ خاتون نے جو الزام لگایاہے وہ اس کا بدلہ اورقصاص طلب کررہی ہے لہذاس الزام لگانے والی عورت کو شرعی حد سے گزاراجائے۔چنانچہ شرعی حد جوتمہت لگانے کی ہے یعنی اسی کوڑے۔کوڑے مارنے شروع کئے گئے۔ایک دو،دس بیس،پچاس،ساٹھ ستر بلکہ اناسی79کوڑوں تک اس زندہ خاتون کا ہاتھ مردہ عورت کے جسم کے کمر کے نچلے حصہ سے چپکارہا۔جوں ہی آخری کوڑاماراگیا۔اس کا ہاتھ مردہ عورت کے جسم سے الگ ہوگیا۔
بحوالہ بستان المحدثین للشاہ عبدلعزیز دہلوی،صفحہ25،۔انوارالمسالک لمحمد بن علوی المالکی الحسنی 244،شرح التجرید الصحیح للعلامۃ الشرقاوی 343
محبوب آپکے قدموں میں
ایک عورت گاؤں کے عالم کو روایتی والا عامل سمجھتی تھی جو گنڈے اور تعویذ کا کام کرتا ہے۔ اس لیئے جاتے ہی اس نے فرمائش کر ڈالی کہ مجھے ایسا عمل کر دیجئے کہ میرا خاوند میرا مطیع بن کر رہے اور مجھے ایسی محبت دے جو دنیا میں
کسی عورت نے نا پائی ہو۔ بندہ عامل ہوتا تو جھٹ سے تعویذ لکھتا اور اپنے پیسے کھرے کرتا، وہ جانتا تھا کہ خاتون اسے کچھ اور ہی سمجھ کر اپنی مراد پانے کیلئے آئی بیٹھی ہے۔ یہی سوچ کر عالم صاحب نے کہا، محترمہ، تیری خواہش بہت بڑی ہے لہٰذہ اس کے عمل کی قیمت بھی بڑی ہوگی، کیا تم یہ قیمت ادا کرنے کیلئے تیار ہو؟
عورت نے کہا میں بخوشی ہر قیمت دینے کیلئے تیار ہوں۔ عالم نے کہا ٹھیک ہے تم مجھے شیر کی گردن سے ایک بال خود اپنے ہاتھوں سے توڑ کر لا دو تاکہ میں اپنا عمل شروع کر سکوں۔ شیر کی گردن کا بال اور وہ بھی میں اپنے ہاتھ سے توڑ کر لا دوں؟ جناب آپ اس عمل کی قیمت روپوں میں مانگیئے تو میں ہر قیمت دینے کو تیار ہوں مگر یہ توآپ عمل نا کر کے دینے والی بات کر رہے ہیں! آپ جانتے ہی ہیں کہ شیر ایک خونخوار اور وحشی جانور ہے۔ اس سے پہلے کی میں اس کی گردن تک پہنچ کر اسکا بال حاصل کر پاؤں وہ مجھے پہلے ہی پھاڑ کھائے گا۔
عالم نے کہا، بی بی، میں بالکل ٹھیک کہہ رہا ہوں۔ اس عمل کے لئے شیر کی گردن کا بال ہی لانا ہوگا اور وہ بھی تم اپنے ہاتھ سے توڑ کر لاؤ گی۔ اس عمل کو بس اسی طرح ہی کیا جا سکتا ہے۔
عورت ویسے تو مایوس ہو کر ہی وہاں سے چلی مگر پھر بھی اس نے اپنی چند ایک راز دان سہیلیوں اور مخلص احباب سے مشورہ کیا تواکثر کی زبان سے یہی سننے کو ملا کہ کام اتنا ناممکن تو نہیں ہے کیونکہ شیر تو بس اسی وقت ہی خونخوار ہوتا ہے جب بھوکا ہو۔ شیر کو کھلا پلا کر رکھو تو اس کے شر سے بچا جا سکتا ہے۔ اس عورت نے یہ نصیحتیں اپنے پلے باندھیں اور جنگل میں جا کر آخری حد تک جانے کی ٹھان لی۔
عورت شیر کیلئے گوشت پھینک کر دور چلی جاتی اور شیر آ کر یہ گوشت کھا لیتا۔ وقت کے ساتھ ساتھ شیر اور اس عورت میں الفت بڑھتی چلی گئی اور فاصلے آہستہ آہستہ کم ہونا شروع ہو گئے۔ اور آخر وہ دن آن ہی پہنچا جب شیر کو اس عورت کی محبت میں کوئی شک و شبہ نا رہا تھا۔ عورت نے گوشت ڈال کر اپنا ہاتھ شیر کے سر پر پھیرا تو شیر نے طمانیت کے ساتھ اپنی آنکھیں موند لیں۔ یہی وہ لمحہ تھا عورت نے آہستگی سے شیر کی گردن سے ایک بال توڑا اور وہاں سے بھاگتے ہوئے سیدھا عالم کے پاس پہنچی۔ بال اس کے ہاتھ پر رکھتے ہی پورے جوش و خروش کے ساتھ بولی، یہ لیجیئے شیر کی گردن کا بال۔ میں نے خود اپنے ہاتھ سے توڑا ہے۔ اب عمل کرنے میں دیر نا لگائیے۔ تاکہ میں اپنے خاوند کا دل ہمیشہ کیلئے جیت کر اس سے ایسی محبت پا سکوں جو دنیا کی کسی عورت کو نا ملی ہو۔
عالم نے عورت سے پوچھا، یہ بال حاصل کرنے کیلئے تم نے کیا کیا؟
عورت نے جوش و خروش کے ساتھ پوری داستان سنانا شروع کی کہ وہ کس طرح شیر کے قریب پہنچی، اس نے جان لیا تھا کہ بال حاصل کرنے کیلئے شیر کی رضا حاصل کرنا پڑے گی۔ اور یہ رضا حاصل کرنے کیلئے شیر کا دل جیتنا پڑے گا جب کہ شیر کے دل کا راستہ اس کے معدے سے ہو کر جاتا ہے۔ پس شیر کا دل جیتنے کیلئے اس نے شیر کے معدے کو باقاعدگی سے بھرنا شروع کیا۔ اس کام کے لئے ایک بہت صبر آزما انتظار کی ضرورت تھی اور آخر وہ دن آ پہنچا جب وہ شیر کا دل جیت چکی تھی اور اپنا مقصد پانا اس کیلئے بہت آسان ہو چکا تھا۔
عالم نے عورت سے کہا، اے اللہ کی بندی؛ میں نہیں سمجھتا کہ تیرا خاوند اس شیر سے زیادہ وحشی ، اجڈ اور خطرناک ہے۔ تو اپنے خاوند کے ساتھ ایسا ہی سلوک کیوں نہیں کرتی جیسا سلوک تو نے اس شیر کے ساتھ کیا۔ جان لے کہ مرد کے دل کا راستہ بھی اس کے معدے سے ہی ہو کر گزرتا ہے۔ خاوند کے پیٹ کو بھر کر رکھ، مگر صبر کے ساتھ، ویسا صبر جیسا شیر جیسے جانور کو دوست بننے کے مرحلے تک میں کیا تھا
کسی عورت نے نا پائی ہو۔ بندہ عامل ہوتا تو جھٹ سے تعویذ لکھتا اور اپنے پیسے کھرے کرتا، وہ جانتا تھا کہ خاتون اسے کچھ اور ہی سمجھ کر اپنی مراد پانے کیلئے آئی بیٹھی ہے۔ یہی سوچ کر عالم صاحب نے کہا، محترمہ، تیری خواہش بہت بڑی ہے لہٰذہ اس کے عمل کی قیمت بھی بڑی ہوگی، کیا تم یہ قیمت ادا کرنے کیلئے تیار ہو؟
عورت نے جوش و خروش کے ساتھ پوری داستان سنانا شروع کی کہ وہ کس طرح شیر کے قریب پہنچی، اس نے جان لیا تھا کہ بال حاصل کرنے کیلئے شیر کی رضا حاصل کرنا پڑے گی۔ اور یہ رضا حاصل کرنے کیلئے شیر کا دل جیتنا پڑے گا جب کہ شیر کے دل کا راستہ اس کے معدے سے ہو کر جاتا ہے۔ پس شیر کا دل جیتنے کیلئے اس نے شیر کے معدے کو باقاعدگی سے بھرنا شروع کیا۔ اس کام کے لئے ایک بہت صبر آزما انتظار کی ضرورت تھی اور آخر وہ دن آ پہنچا جب وہ شیر کا دل جیت چکی تھی اور اپنا مقصد پانا اس کیلئے بہت آسان ہو چکا تھا۔
ﺍﭘﻨﯽ ﺍﺻﻼﺡ
ﻛﺴﺎﻥ ﻛﻰ ﺑﻴﻮﻯ ﻧﮯ ﺟﻮ ﻣﻜﻬﻦ ﻛﺴﺎﻥ ﻛﻮ
ﺗﻴﺎﺭ ﻛﺮ ﻛﮯ ﺩﻳﺎ ﺗﻬﺎ ﻭﻩ ﺍﺳﮯ ﻟﻴﻜﺮ ﻓﺮﻭﺧﺖ
ﻛﺮﻧﮯ ﻛﻴﻠﺌﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﮔﺎﺅﮞ ﺳﮯ ﺷﮩﺮ ﻛﻰ
ﻃﺮﻑ ﺭﻭﺍﻧﮧ ﮨﻮ ﮔﻴﺎ،
ﯾﮧ ﻣﻜﻬﻦ ﮔﻮﻝ ﭘﻴﮍﻭﮞ ﻛﻰ ﺷﻜﻞ ﻣﻴﮟ ﺑﻨﺎ
ﮨﻮﺍ ﺗﻬﺎ ﺍﻭﺭ ﮨﺮ ﭘﻴﮍﮮ ﻛﺎ ﻭﺯﻥ ﺍﻳﮏ ﻛﻠﻮ ﺗﻬﺎ۔
ﺷﮩﺮ ﻣﻴﮟ ﻛﺴﺎﻥ ﻧﮯ ﺍﺱ ﻣﻜﻬﻦ ﻛﻮ
ﺣﺴﺐ ﻣﻌﻤﻮﻝ ﺍﻳﮏ ﺩﻭﻛﺎﻧﺪﺍﺭ ﻛﮯ ﮨﺎﺗﮭﻮﮞ
ﻓﺮﻭﺧﺖ ﻛﻴﺎ
ﺍﻭﺭ ﺩﻭﻛﺎﻧﺪﺍﺭ ﺳﮯ ﭼﺎﺋﮯ ﻛﻰ ﭘﺘﻰ، ﭼﻴﻨﻰ،
ﺗﻴﻞ ﺍﻭﺭ ﺻﺎﺑﻦ ﻭﻏﻴﺮﻩ ﺧﺮﻳﺪ ﻛﺮ ﻭﺍﭘﺲ ﺍﭘﻨﮯ
ﮔﺎﺅﮞ ﻛﻰ ﻃﺮﻑ ﺭﻭﺍﻧﮧ ﮨﻮ ﮔﻴﺎ.
ﻛﺴﺎﻥ ﻛﮯ ﺟﺎﻧﮯ ﺑﻌﺪ…… ﺩﻭﻛﺎﻧﺪﺍﺭ ﻧﮯ
ﻣﻜﻬﻦ ﻛﻮ ﻓﺮﻳﺰﺭ ﻣﻴﮟ ﺭﻛﻬﻨﺎ ﺷﺮﻭﻉ ﻛﻴﺎ….
ﺍﺳﮯ ﺧﻴﺎﻝ ﮔﺰﺭﺍ ﻛﻴﻮﮞ ﻧﮧ ﺍﻳﮏ ﭘﻴﮍﮮ ﻛﺎ
ﻭﺯﻥ ﻛﻴﺎ ﺟﺎﺋﮯ.
ﻭﺯﻥ ﻛﺮﻧﮯ ﭘﺮ ﭘﻴﮍﺍ 900 ﮔﺮﺍﻡ ﻛﺎ ﻧﻜﻼ،
ﺣﻴﺮﺕ ﻭ ﺻﺪﻣﮯ ﺳﮯ ﺩﻭﻛﺎﻧﺪﺍﺭ ﻧﮯ ﺳﺎﺭﮮ
ﭘﻴﮍﮮ ﺍﻳﮏ ﺍﻳﮏ ﻛﺮ ﻛﮯ ﺗﻮﻝ ﮈﺍﻟﮯ
ﻣﮕﺮ ﻛﺴﺎﻥ ﻛﮯ ﻻﺋﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﺳﺐ ﭘﻴﮍﻭﮞ ﻛﺎ
ﻭﺯﻥ ﺍﻳﮏ ﺟﻴﺴﺎ ﺍﻭﺭ 900 – 900 ﮔﺮﺍﻡ
ﮨﻰ ﺗﻬﺎ۔
ﺍﮔﻠﮯ ﮨﻔﺘﮯ ﻛﺴﺎﻥ ﺣﺴﺐ ﺳﺎﺑﻖ ﻣﻜﻬﻦ
ﻟﻴﻜﺮ ﺟﻴﺴﮯ ﮨﻰ ﺩﻭﻛﺎﻥ ﻛﮯ ﺗﻬﮍﮮ ﭘﺮ
ﭼﮍﻫﺎ،
ﺩﻭﻛﺎﻧﺪﺍﺭ ﻧﮯ ﻛﺴﺎﻥ ﻛﻮ ﭼﻼﺗﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﻛﮩﺎ ﮐﮧ
ﻭﻩ ﺩﻓﻊ ﮨﻮ ﺟﺎﺋﮯ، ﻛﺴﻰ ﺑﮯ ﺍﻳﻤﺎﻥ ﺍﻭﺭ
ﺩﻫﻮﻛﮯ ﺑﺎﺯ ﺷﺨﺺ ﺳﮯ ﻛﺎﺭﻭﺑﺎﺭ ﻛﺮﻧﺎ
ﺍﺳﻜﺎ ﺩﺳﺘﻮﺭ ﻧﮩﻴﮟ ﮨﮯ. 900
ﮔﺮﺍﻡ ﻣﻜﻬﻦ ﻛﻮ ﭘﻮﺭﺍ ﺍﯾﮏ ﻛﻠﻮ ﮔﺮﺍﻡ ﻛﮩﮧ
ﻛﺮ ﺑﻴﭽﻨﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﺷﺨﺺ ﻛﻰ ﻭﻩ ﺷﻜﻞ
ﺩﻳﻜﻬﻨﺎ ﺑﻬﻰ ﮔﻮﺍﺭﺍ ﻧﮩﻴﮟ ﻛﺮﺗﺎ.
ﻛﺴﺎﻥ ﻧﮯ ﻳﺎﺳﻴﺖ ﺍﻭﺭ ﺍﻓﺴﺮﺩﮔﻰ ﺳﮯ
ﺩﻭﻛﺎﻧﺪﺍﺭ ﺳﮯ ﻛﮩﺎ:
“ﻣﻴﺮﮮ ﺑﻬﺎﺋﻰ ﻣﺠﮫ ﺳﮯ ﺑﺪ ﻇﻦ ﻧﮧ ﮨﻮ ﮨﻢ
ﺗﻮ ﻏﺮﻳﺐ ﺍﻭﺭ ﺑﮯ ﭼﺎﺭﮮ ﻟﻮﮒ ﮨﻴﮟ،
ﮨﻤﺎﺭﮮ ﭘﺎﺱ ﺗﻮﻟﻨﮯ ﻛﻴﻠﺌﮯ ﺑﺎﭦ ﺧﺮﻳﺪﻧﮯ ﻛﻰ
ﺍﺳﺘﻄﺎﻋﺖ ﻛﮩﺎﮞ.
ﺁﭖ ﺳﮯ ﺟﻮ ﺍﻳﮏ ﻛﻴﻠﻮ ﭼﻴﻨﻰ ﻟﻴﻜﺮ ﺟﺎﺗﺎ ﮨﻮﮞ
ﺍﺳﮯ ﺗﺮﺍﺯﻭ ﻛﮯ ﺍﻳﮏ ﭘﻠﮍﮮ ﻣﻴﮟ ﺭﮐﮫ ﻛﺮ
ﺩﻭﺳﺮﮮ ﭘﻠﮍﮮ ﻣﻴﮟ ﺍﺗﻨﮯ ﻭﺯﻥ ﻛﺎ ﻣﻜﻬﻦ
ﺗﻮﻝ ﻛﺮ ﻟﮯ ﺁﺗﺎ ﮨﻮﮞ.
ﺍﺱ ﺗﺤﺮﯾﺮ ﮐﻮ ﭘﮍﮬﻨﮯ ﮐﮧ ﺑﻌﺪ ﺁﭖ ﮐﯿﺎ
ﻣﺤﺴﻮﺱ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﯿﮟ۔
ﮐﺴﯽ ﭘﺮ ﺍﻧﮕﻠﯽ ﺍﭨﮭﺎﻧﮯ ﺳﮯ ﭘﮩﻠﮯ ﮐﯿﺎ ﮨﻢ
ﭘﮩﻠﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﮔﺮﯾﺒﺎﻥ ﭼﯿﮏ ﻧﮧ ﮐﺮﻟﯿﮟ۔ ﮐﮩﯿﮟ
ﯾﮧ ﺧﺮﺍﺑﯽ ﮨﻤﺎﺭﮮ ﺍﻧﺪﺭ ﺗﻮ ﻧﮩﯿﮟ ؟ ﺷﮑﺮﯾﮧ
ﮐﯿﻮﻧﮑﮧ ﺍﭘﻨﯽ ﺍﺻﻼﺡ ﮐﺮﻧﺎ ﻣﺸﮑﻞ ﺗﺮﯾﻦ ﮐﺎﻡ
ﮨﮯ–
ﺗﻴﺎﺭ ﻛﺮ ﻛﮯ ﺩﻳﺎ ﺗﻬﺎ ﻭﻩ ﺍﺳﮯ ﻟﻴﻜﺮ ﻓﺮﻭﺧﺖ
ﻛﺮﻧﮯ ﻛﻴﻠﺌﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﮔﺎﺅﮞ ﺳﮯ ﺷﮩﺮ ﻛﻰ
ﻃﺮﻑ ﺭﻭﺍﻧﮧ ﮨﻮ ﮔﻴﺎ،
ﯾﮧ ﻣﻜﻬﻦ ﮔﻮﻝ ﭘﻴﮍﻭﮞ ﻛﻰ ﺷﻜﻞ ﻣﻴﮟ ﺑﻨﺎ
ﮨﻮﺍ ﺗﻬﺎ ﺍﻭﺭ ﮨﺮ ﭘﻴﮍﮮ ﻛﺎ ﻭﺯﻥ ﺍﻳﮏ ﻛﻠﻮ ﺗﻬﺎ۔
ﺣﺴﺐ ﻣﻌﻤﻮﻝ ﺍﻳﮏ ﺩﻭﻛﺎﻧﺪﺍﺭ ﻛﮯ ﮨﺎﺗﮭﻮﮞ
ﻓﺮﻭﺧﺖ ﻛﻴﺎ
ﺍﻭﺭ ﺩﻭﻛﺎﻧﺪﺍﺭ ﺳﮯ ﭼﺎﺋﮯ ﻛﻰ ﭘﺘﻰ، ﭼﻴﻨﻰ،
ﺗﻴﻞ ﺍﻭﺭ ﺻﺎﺑﻦ ﻭﻏﻴﺮﻩ ﺧﺮﻳﺪ ﻛﺮ ﻭﺍﭘﺲ ﺍﭘﻨﮯ
ﮔﺎﺅﮞ ﻛﻰ ﻃﺮﻑ ﺭﻭﺍﻧﮧ ﮨﻮ ﮔﻴﺎ.
ﻣﻜﻬﻦ ﻛﻮ ﻓﺮﻳﺰﺭ ﻣﻴﮟ ﺭﻛﻬﻨﺎ ﺷﺮﻭﻉ ﻛﻴﺎ….
ﺍﺳﮯ ﺧﻴﺎﻝ ﮔﺰﺭﺍ ﻛﻴﻮﮞ ﻧﮧ ﺍﻳﮏ ﭘﻴﮍﮮ ﻛﺎ
ﻭﺯﻥ ﻛﻴﺎ ﺟﺎﺋﮯ.
ﻭﺯﻥ ﻛﺮﻧﮯ ﭘﺮ ﭘﻴﮍﺍ 900 ﮔﺮﺍﻡ ﻛﺎ ﻧﻜﻼ،
ﺣﻴﺮﺕ ﻭ ﺻﺪﻣﮯ ﺳﮯ ﺩﻭﻛﺎﻧﺪﺍﺭ ﻧﮯ ﺳﺎﺭﮮ
ﭘﻴﮍﮮ ﺍﻳﮏ ﺍﻳﮏ ﻛﺮ ﻛﮯ ﺗﻮﻝ ﮈﺍﻟﮯ
ﻣﮕﺮ ﻛﺴﺎﻥ ﻛﮯ ﻻﺋﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﺳﺐ ﭘﻴﮍﻭﮞ ﻛﺎ
ﻭﺯﻥ ﺍﻳﮏ ﺟﻴﺴﺎ ﺍﻭﺭ 900 – 900 ﮔﺮﺍﻡ
ﮨﻰ ﺗﻬﺎ۔
ﻟﻴﻜﺮ ﺟﻴﺴﮯ ﮨﻰ ﺩﻭﻛﺎﻥ ﻛﮯ ﺗﻬﮍﮮ ﭘﺮ
ﭼﮍﻫﺎ،
ﺩﻭﻛﺎﻧﺪﺍﺭ ﻧﮯ ﻛﺴﺎﻥ ﻛﻮ ﭼﻼﺗﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﻛﮩﺎ ﮐﮧ
ﻭﻩ ﺩﻓﻊ ﮨﻮ ﺟﺎﺋﮯ، ﻛﺴﻰ ﺑﮯ ﺍﻳﻤﺎﻥ ﺍﻭﺭ
ﺩﻫﻮﻛﮯ ﺑﺎﺯ ﺷﺨﺺ ﺳﮯ ﻛﺎﺭﻭﺑﺎﺭ ﻛﺮﻧﺎ
ﺍﺳﻜﺎ ﺩﺳﺘﻮﺭ ﻧﮩﻴﮟ ﮨﮯ. 900
ﮔﺮﺍﻡ ﻣﻜﻬﻦ ﻛﻮ ﭘﻮﺭﺍ ﺍﯾﮏ ﻛﻠﻮ ﮔﺮﺍﻡ ﻛﮩﮧ
ﻛﺮ ﺑﻴﭽﻨﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﺷﺨﺺ ﻛﻰ ﻭﻩ ﺷﻜﻞ
ﺩﻳﻜﻬﻨﺎ ﺑﻬﻰ ﮔﻮﺍﺭﺍ ﻧﮩﻴﮟ ﻛﺮﺗﺎ.
ﺩﻭﻛﺎﻧﺪﺍﺭ ﺳﮯ ﻛﮩﺎ:
“ﻣﻴﺮﮮ ﺑﻬﺎﺋﻰ ﻣﺠﮫ ﺳﮯ ﺑﺪ ﻇﻦ ﻧﮧ ﮨﻮ ﮨﻢ
ﺗﻮ ﻏﺮﻳﺐ ﺍﻭﺭ ﺑﮯ ﭼﺎﺭﮮ ﻟﻮﮒ ﮨﻴﮟ،
ﮨﻤﺎﺭﮮ ﭘﺎﺱ ﺗﻮﻟﻨﮯ ﻛﻴﻠﺌﮯ ﺑﺎﭦ ﺧﺮﻳﺪﻧﮯ ﻛﻰ
ﺍﺳﺘﻄﺎﻋﺖ ﻛﮩﺎﮞ.
ﺁﭖ ﺳﮯ ﺟﻮ ﺍﻳﮏ ﻛﻴﻠﻮ ﭼﻴﻨﻰ ﻟﻴﻜﺮ ﺟﺎﺗﺎ ﮨﻮﮞ
ﺍﺳﮯ ﺗﺮﺍﺯﻭ ﻛﮯ ﺍﻳﮏ ﭘﻠﮍﮮ ﻣﻴﮟ ﺭﮐﮫ ﻛﺮ
ﺩﻭﺳﺮﮮ ﭘﻠﮍﮮ ﻣﻴﮟ ﺍﺗﻨﮯ ﻭﺯﻥ ﻛﺎ ﻣﻜﻬﻦ
ﺗﻮﻝ ﻛﺮ ﻟﮯ ﺁﺗﺎ ﮨﻮﮞ.
ﻣﺤﺴﻮﺱ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﯿﮟ۔
ﮐﺴﯽ ﭘﺮ ﺍﻧﮕﻠﯽ ﺍﭨﮭﺎﻧﮯ ﺳﮯ ﭘﮩﻠﮯ ﮐﯿﺎ ﮨﻢ
ﭘﮩﻠﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﮔﺮﯾﺒﺎﻥ ﭼﯿﮏ ﻧﮧ ﮐﺮﻟﯿﮟ۔ ﮐﮩﯿﮟ
ﯾﮧ ﺧﺮﺍﺑﯽ ﮨﻤﺎﺭﮮ ﺍﻧﺪﺭ ﺗﻮ ﻧﮩﯿﮟ ؟ ﺷﮑﺮﯾﮧ
ﮐﯿﻮﻧﮑﮧ ﺍﭘﻨﯽ ﺍﺻﻼﺡ ﮐﺮﻧﺎ ﻣﺸﮑﻞ ﺗﺮﯾﻦ ﮐﺎﻡ
ﮨﮯ–
No comments:
Post a Comment